پاکستان میں درختوں کی کٹائی جس طرح سے ہو رہی ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ چند سالوں میں پاکستان اللہ پاک کی قدرتی نعمت آکسیجن سے جلد محروم ہو جائے گا۔ ماحول کو صاف سُتھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے درخت انتہائی ضروری ہیں۔ اور کسی بھی ملک کے لئے 20 سے 25 فی صد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہئے۔ لیکن بد قسمتسی سے پاکستان جنگلات سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔
میں اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ موجودہ دور میں گیس کی قلت اور بجلی کی کمی پاکستان کی صنعتوں کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور حکومت کی ناقص پالیسیوں اور لا پرواہی سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔
صنعت کار گیس کے متبادل کے طور پر بوائلرز میں لکڑی۔ مکئی کی بغیر دانوں کے چھلی۔ چاول کا چھلکا وغیرہ استعمال کیا جارہا ہے۔ لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے اور کئی علاقے جنگلات سے خالی ہو رہے ہیں۔ایک میڈیم سائز کا بوائلر 24 گھنٹے میں پانچ سو من 500 من لکڑی استعمال ہوتی ہے۔ اس طرح صرف ایک بوائلر ایک ماہ میں 15 ٹن لکڑی استعمال کرتا ہے۔ شیخوپورہ ضلع میں تقریباً 200 سو سے زائد صنعتیں بوائلر استعمال کرتی ہیں جن میں سے زیادہ تر لکڑی پر ہیں صرف ضلع شیخوپورہ میں ایک ماہ میں3000 ہزار ٹن درختوں کی لکڑی استعمال ہو رہی ہے۔ اور ایک سال میں کم از کم 36000 ٹن استعمال یے۔ یہ صرف ایک ضلع کا کم سے کم تخمینہ ہے۔ اگر پورے پاکستان کی صنعتوں کا حساب لگایا جائے تو تخمینہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
اگر اس طرح اور اتنی تعداد میں لکڑی استعمال ہوگی تو جنگلات کا مستقبل کیا ہے۔ضلع بھکر لکڑی کی بڑی منڈی تھی مگر اب وہ ختم ہونے کے قریب ہےاسی طرح آہستہ آہستہ جنگلات ختم ہوتے جائیں گے اور جب نہ رہیں گے تو پھر کیا ہو گا۔ کیا ہم اس کا متبادل ڈھونڈ پائیں گے۔۔
ذرا سوچئے
اگر اس طرح اور اتنی تعداد میں لکڑی استعمال ہوگی تو جنگلات کا مستقبل کیا ہے۔ضلع بھکر لکڑی کی بڑی منڈی تھی مگر اب وہ ختم ہونے کے قریب ہےاسی طرح آہستہ آہستہ جنگلات ختم ہوتے جائیں گے اور جب نہ رہیں گے تو پھر کیا ہو گا۔ کیا ہم اس کا متبادل ڈھونڈ پائیں گے۔۔
ذرا سوچئے
No comments:
Post a Comment